گہرے بادل
گہرے بادل
از قلم این این ایم
قسط نمبر1
اممی میں کالج جا رہی ہوں اج میرا اخری پیپر ہے باے باے ماہ نور سیھڑیاں اترتے ہوے اپنی اممی سے مخاطب ہوی جو کیچن میں کچھ کام کر رہی تھیں
ارے بیٹا ناشتہ تو کرتی جاو اس کی اممی فکر مند ہو کر بولیں
اممی مجھے پہلے ہی دیر ہو رہی ہے میں کالج سے کچھ کھا لوں گی یہ کہ کر وہ جلدی سے اپنی اممی کو گال پر پیار کر کہ باہر چلی گیء اس کی اممی اسے جاتا دیکھ کر ہنس دی اور واپس اپنے کام میں مصروف ہو گیء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور اور اس کی اممی شازیہ لاہور میں رہتے تھے ماہ نور کے اببو کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا جب ماہ نور صرف چھے سال کی تھی ماہ نور کی اممی نے ماہ نور کو بہت لاڈ پیار سے پلا اور اسے کسی چیز کی کمی ںھیں ہونے
دی ماہ نور اب بی ایس اکنومکس کر رہی تھی اور اج اس کا اخری پیپر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور تمہارا پیپر کیسا ہوا پیپر ہال سے باہر نکلتے ہی پریشے نے ماہ نور سے پوچھا
ارے میرا پیپر تو اچھا ہوا تم بتاو ماہ نور نے پریشے سے سوال کیا ارے یار میرا نا لاسٹ سوال چھوٹ گیا میں سوچتی رہ گیء اور ٹیچر سمرین نے مجھ سے پیپر لے لیا
ارے ارے کوی بات نھیں زیادہ سے زیادہ تم فیل ہو جاو گی اور تمہاری خالہ تمہاری شادی کر دے گی تمہارے کزن سے بس ماہ نور نے اسے چھیڈا تو پریشے منہ پلا کر بیٹھ گیء اب میں تم سے کبھی بات ںھیں کروں گی پریشے عصے سے بولی
نا کرو ہم سے بات لیکن پری میڈم اپ کی شادی تو پکی ہھ ماہ نور ہسنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے پری جلدی چلو دیکھو بس اگی یہ کہ کر ماہ نور دوڈی اور بس میں سوار ہو گیء
ارے ماہ نور تم اگی
جی اممی اگیء
کیسا ہوا پیپر میری جان کا
امی بہت اچھا اپ فکر نا کرے انشااللہ پوزیشن ضرور اے گی
انشااللہ کیو نھیں بیٹا ضرور
اچھا تم منہ ہاتھ دھولو میں کھانا لگاتی ہو
جی اممی بسس میں ابھی ای ماہ نور یہ کہتی اوپر چلی گیء پھر ماہنور اور اس کی اممی نے کھانا کھا ساتھ ہی ساتھ باتیں بھی کیں
۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ماہ نور ناشتہ کر رہی تھی کے اس کس کی اممی نے اسے مخاطب کیا ماہ نور اب خیر سے تمہاری پڈہای بھی مکمل ہو چکی ہے میں چاہتی ہوں کہ اب تمہار شادی کر دوں
اممی اممی میری پیاری اممی یہ بیٹھے بیٹھے کیا خیال اگیا ابھی کل ہی تو اخری سمیسٹر ختم ہوا ہے اور اج اپ شادی کی بات کر رہی ہیں ا
بیٹا میں تمہاری شادی کر کے تمہیں تمہارے گھر کا کرنا چاہتی ہو
اممی میں جانتی ہو پر اپ کو نھیں لگتا کہ اپ بہت جلدی کر رھی ہو
اچھا بیٹا اب ناشتہ کرو بعد میں بات کرو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا میں ت۔ہیں کیسے بتاو کہ میں تمری شادی کیو اتنی جلدی کر نا چاہتی ہو بیٹا تمھاری اممی کے پاس زیادہ وقت نھیں ہے مین تمہین کیڈے بتاوں کے تمہاری ماں کو بلڈ کینسر ہے ماہ نور کی اممی رات کو اپنے بستر پر لیٹے خود سے ہی ۔مخاطب تھیں اور ان کی انکھو زے انسوں بہ رہے تھے
ماہ نور اج صبح سے ہی پری کے ساتھ شوپنگ پر گیء ہوی تھی جب وہ گھر پہچی تو گھر میں مہمانوں کو دیکھا تو حیران ھوی ابھی وہ کچھ کہنے ہی ولی تھی کہ اس کی اممی نے اگے بڈھ کر اس کا ہاتھ پکڈ کر کہا یہ ہے میری بیٹی ماہ نورہے ماہ نور کو کچھ بھی سمجھ نھی ارہا تھا جب وہ لوگ چلے گےء تو ماہ نور پھٹ پدی اممی میں ابھی شادی نھی کر سکتی مجھے ابھی نوکری کرنی ہے اور اپ کو کنگن بھی تو بنوا کر دینے ہیں جو اپنے میرے سمیسٹر کی فی دینے کے لیے پیچے میں کچھ نھیں بھولی اممی اچھا ماہ نور مجھے بات نیں کرنی بہت کام ہے جاو اپنے کمرے میں
اممی پر ا
چپ ایک لفظ اور جاو اپنے کمرے میں
ماہ نور پیر پٹختی ہوی اپنے کمرے چلی گیء